اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، وعدہ
صادق آپریشن امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ملت ایران
کے مطالبات کے نتیجے میں عمل میں لایا گیا۔ ملت ایران اور مسلح افواج کے ارادے کی
قوت اس اظہار نے دنیا بھر کے احرار کی توجہ فلسطین کی مظلوم قوم کی طرف مبذول کرائی
ہے۔
اس حوالے سے چند نکات کی یاددہانی ضروری ہے:
1۔ مغربی حکام اور بیشتر مغربی ریاستوں کی تاریخ ظلم، ستم، جرم، فریب اور جارحیت سے بھری پڑی ہے۔ یہ وہ جفائیں ہیں جو امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے بقول "مخمل کے دستانوں میں چھپے ہوئے آہنی ہاتھوں"، منافقت اور فریب کے ذریعے روا رکھی جاتی ہیں۔ مغرب نے ہمیشہ "انسانی حقوق"، "حقوق نسوان"، "شہری حقوق"، "سوشل سوسائٹی"، وغیرہ جیسے دلفریب، عوام پسند، بظاہر خوبصورت اور گمراہ کن اصطلاحات اور الفاظ بروئے کار لاکر ذہنوں میں دراندازی کرکے دنیا کو بے وقوف بنایا ہے اور "آزادی اظہار"، "جاننا عوام کا حق ہے"، وغیرہ جیسے خودساختہ نعروں کے ساتھ افکار میں نفوذ کرکے اقوام عالم کو دھوکہ دیا ہے اور پھر فریب خوردہ اشرافیہ کو کٹھ پتلی بنا کر اپنی دست نگر حکومتیں قائم کی ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ ان نعروں اور اصطلاحات کے منافی، عمل کیا ہے اور آج بھی یہی کچھ کر رہے ہیں اور یوں انہوں نے اقوام کو غلام بنایا ہے اور بنا رہے ہیں اور اپنے تسلط کو قائم و دائم رکھا ہے۔
2۔ تسلط پسند عالمی نظام کی ان تمام جارحیتوں اور تجاوزات کے پس پردہ (اور Backstage پر) خونخوار درندوں سے زیادہ پس صہیونی ہیں، جو اپنی صدیوں پرانی روایات پر عمل پیرا رہ کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، حقائق میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور مظلومیت کی اداکاری کرتے ہیں اور یوں اپنی خونخواریوں، درندگیوں اور انسانیت دشمنی کا جواز پیش کرتے ہیں۔ "ہالوکاسٹ" (یا قتل انبوہ) کا موٹا تاریخی جھوٹ ان ہی تاریخی تحریفات میں سے ایک ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں تقریبا ساڑھے آٹھ کروڑ انسان مارے گئے، جبکہ اس زمانے میں دنیا بھر میں یہودیوں کی پوری آبادی ـ جو یورپ، ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی ـ تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ تھی، چنانچہ جرمنی اور پولینڈ میں اگر یہودیوں کی آبادی رہی بھی ہو تو یقیینا دنیا کی نصف یہودی ـ50لاکھـ آبادی کا ان دو ملکوں میں قیام بالکل ممکن نہیں ہے، لیکن دوسری جنگ کے فاتحین نے صہیونیوں کو فلسطین پر مسلط کرنے کے لئے دعوی کیا کہ ہٹلر نے پچاس لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا ہے انہیں اینٹوں کے بھٹوں میں جلایا ہے، وغیرہ وغیرہ؛ مغرب آزاد فکری کا نعرہ لگاتے ہوئے بھی ہالوکاسٹ کے تقریبا 80 سال گذرنے کے بعد بھی، اس کے میں تحقیق و تفتیش کو لائق سزا جرم سمجھتے ہیں، اور اس دعوے کے خلاف کسی بھی عالم و دانشور یا صحافی اور سیاستدان کی علمی آراء کو "سامیت دشمنی [یا یہود دشمنی antisemitism] کا ملزم ٹہراتے ہیں یا یوں کہئے کہ سامیت دشمنی ایک اوزار ہے جس کو صہیونی مظالم کے خلاف ہر اٹھنے والی صدا خاموش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہرحال کوئی بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ ہٹلر کے دور میں جرمنی اور آس پاس کے ممالک میں ـ مجموعی طور پر ـ کتنے یہودی رہائش پذیر تھے؟! کیا خونریز اور خونخوار ہٹلر صرف یہودیوں کا قاتل تھا؟ کیا یورپی، روسی، امریکی، ایشیائی اور افریقی ـ جو اس جنگ میں مارے گئے ـ غیر یہودی نہیں تھے؟
بہر حال دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی استعمار اور صہیونیت کا غالب بیانیہ یہی ہے کہ جرمنی آمر ہٹلر کے ہاتھوں ہالوکاسٹ کا واقعہ ہؤا ہے، یہودی مارے گئے ہیں، اور اس کے بارے میں سوال اٹھانا یا تحقیق کا مطالبہ کرنا، سرخ لکیر اور بالکل منع ہے۔
3۔ ہالوکاسٹ کو اگر ہم اسی یہودی اور مغربی بیانیے کے مطابق، قبول بھی کریں تو اس کا دوسرا ـ اور تازہ ترین ـ نمونہ "غزہ" ہے، جہاں مغرب کے حمایت یافتہ یہودی ریاست کے ہاتھوں اب تک 14000 بچوں اور تقریبا اتنی ہی خواتین سمیت 35000 سے زائد فلسطینی قتل ہوئے ہیں، 15000 کے قریب لاپتہ ہیں ـ جو درحقیقت صہیونی بمباریوں کے نتیجے میں ـ ملبوں تلے زندہ در گور ہوئے ہیں جبکہ 80 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جبکہ اس سے پہلے ایک ہالوکاسٹ 1990ع کی دہائی میں مغربی دنیا اور یورپ قلب میں ہی واقع ہؤا "بوسنیا و ہرزیگووینا" میں؛ جہاں 10 لاکھ انسان ـ ایک ملین مسلمان ـ [دو لاکھ] شہید اور [8 لاکھ] زخمی ہوئے، یہ واقعہ صرف 30 سال پرانا ہے، جو پوری نام نہاد مہذب مغربی دنیا کی آنکھوں کے سامنے رونما ہؤا۔ شام، لبنان، عراق، یمن اور افغانستان کے واقعات بھی سب کی آنکھوں کے سامنے رونما ہوئے اور ان واقعات میں اور جنگوں میں ڈھائی ملین انسان مارے گئے ہیں اور لاکھوں مفلوج اور زخمی ہوئے ہیں۔
ان لوگوں کو چنگیز خان، ہلاکو خان، تیمور لنگ یا نپولین بوناپارٹ نے نہیں بلکہ آج کی "انٹرنیشل سوسائٹی" یعنی ـ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، کینیڈا اور دوسرے مبینہ مہذب مغربی ممالک اور یہودی ریاست یا ان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے قتل کیا؛ عام خیال یہ ہے کہ قتل و غارت کے ان تمام واقعات کے پیچھے صہیونی ابلیسوں کی سازشیں کارفرما ہیں جس کے ثبوتوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گوکہ صہیونیوں نے ہمیشہ ان المیوں میں اپنا کردار چھپانے کی کوشش کی ہے۔
4۔ ان تمام تر مسائل اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں، قتل و غارت اور شیطانی اقدامات کے باوجود، اسلام بنی نوعی انسان کی ہدایت و سعادت کا جامع ترین نسخہ ہے اور اسلام، اللہ کے ارادے کے تقاضوں کے مطابق، پھلتا پھولتا رہے گا؛ قرآن نے کئی مرتبہ پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کی بشارت دی ہے چنانچہ اسلام کا غلبہ ایک خیال یا ایک آرزو نہیں بلکہ یہ الٰہی سنت ہے۔ چودہویں صدی ہجری میں عالم مجاہد، فقیہ بصیر، عارف کامل، مفسر، فلسفی، حکیم نیز مرجع تقلید، رہبر انقلاب اسلامی اور بانی اسلامی جمہوریہ ایران امام سید روح اللہ الموسوی الخمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے اس الٰہی وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار تیز تر کر دی اور خالص محمدی(ص) اسلام کے نفاذ کا عَلَم ارض ایران میں گآڑھ دیا اور دنیا بھر کے طاقت کے تمام مراکز پر اسلام کے غلبے کی نوید از سر نو سنا دی۔ آپ نے بائیں اور دائیں بازوؤں اور مغربی اور مشرقی بلاکوں کے مطلق غلبے کے زمانے میں، جبکہ اسلام کے نام پر انقلابی تحریک کی کامیابی ناممکن سمجھی جاتی تھی، اپنی اسلامی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور لبرلزم اور کمیونزم کی طرف رجحان کے عین وقت پر ہزاروں لاکھوں مجاہدین آپ کے پرچم تلے جمع ہوئے اور دنیاوی حیات کی آخری سانسوں تک جمے رہے، یا تو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے یا پھر آج تک اپنے عہد پر قائم ہیں، جن میں سرفہرست الحاج قاسم سلیمانی ہیں، اور ان مجاہدوں کی محنت کا ثمرہ محور مقاومت [یا محاذ مزاحمت] ہے۔ محاذ مزاحمت، تہران سے بغداد، بیروت، دمشق، قدس شریف، غزہ اور صنعا تک اور اسلامی دنیا سے یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ تک۔
5۔ تمام تر مادی مکاتب اور ازمز (isms) رنگ کھو بیٹھے ہیں، کیونکہ آج کا انسان سمجھتا ہے کہ انہوں نے اسے کئی عشروں سے گمراہ کئے رکھا ہے، انسان آج اداس اور نا امید ہے۔ لیکن اسلام کی حقانیت اور نورانیت، شدید مغربی اور صہیونی سینسر شپ اور اسلامو فوبیا کے باوجود، آہستہ آہستہ ان پیاسی روحوں کو سیراب کر رہا ہے، اسلامی انقلاب، اسلامی مقاومت اور غزہ کے بہادر مظلوموں اور یمن و عراق و لبنان کے مجاہدوں کے حیرت انگيز کارناموں اور فلسطین کے ہزاروں شہیدوں نے مغربی اور صہیونی سینسر توڑ کر رکھ دیا ہے، ساز باز کرنے والے عرب حکمران پیچھے رہ گئے ہیں؛ انسانی فطرت جاگ رہی ہے، استعماری مغرب کے قلب سے یورپی اور امریکی نوجوانوں کے اجتماعی قبول اسلام کی خبریں ـ سینسر کے حصاروں سے نکل کر دنیا میں ـ گردش کرنے لگی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ قرآن سوزی اور توہین اسلام اور مغربی معاشروں کو اسلام سے خوفزدہ کرنے کی استعماری اور صہیونی تحریک ناکام ہو چکی ہے؛ وہ مزید بیداری کی اس لہر میں رکاوٹ نہیں بن پا رہی ہے۔
طاغوتوں کی سعی لاحاصل ہے، مغرب اور صہیونیت کی ابلاغیاتی سلطنت گویا زوال کا شکار ہو چکی ہے، وہ اسلام کے حقائق کو مزید پس پردہ نہیں رکھ سکتی، حق کی آوازوں کو نہیں دبا سکتی، مغرب اور صہیونیت کا جھوٹا پن عیاں ہو چکا ہے، اسلام اور اسلامی انقلاب اور مقاومت اسلامی نمونہ عمل ہے اور جس طرح کہ سیاسی اور اقتصادی بالادستی مغرب کے ہاتھ سے نکل کر مشرق منتقل ہو رہی ہے، مغرب کی نوجوان نسل کی بصارتیں اور سماعتیں بھی مغرب کے جھوٹے ذرائع ابلاغ کے بجائے مشرق سے اٹھنے والی ہدایت کی لہر اور مغربی ایشیا سے سنائی دینے والی صدائے حق پر لگی ہوئی ہیں۔ مغربی نسلیں مزید سنتی اور دیکھتی ہی نہیں بلکہ پوچھتی بھی ہیں اور یکطرف تشہیری نظام کے پاس ان کے سوالات کا جواب نہیں ہے چنانچہ وہ یہ جواب اب مشرق سے سننے کے لئے بے چین رہتی ہیں، اور ان کے جواب انقلاب اسلامی اور مقاومت اسلامی کے پاس ہے۔ مغرب مزید اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتا۔ "طوفان الاقصیٰ" اور پھر "الوعد الصادق" نے مغرب اور صہیونیت کی تشہیری مشینریوں کو بھی ناکارہ بنا دیا ہے۔
6۔ طوفان الاقصیٰ نے صہیونیت کو مفلوج کر دیا، غزہ کی شہادتوں نے مغربی تہذیب کے تابوت میں آخری کیل ٹونک دی، وعدہ صادق نے طوفان الاقصیٰ کی تکمیل کر دی، اور مغرب کی جارحیتوں کو لگام دی؛ وعدہ صادق نامی کاروائی امام خمینی، امام خامنہ ای، شہداء کے وعدوں کی تکمیل تھی کیونکہ اس کاروائی نے مغرب کی ظالمانہ بالادستی کے مضبوط قلعے "اسرائیل" کو توڑ کر رکھ دیا۔
دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے قرار دیا تھا کہ "اسرائیل" پر حملہ لندن، پیرس اور واشنگٹن پر حملہ تصور ہوگا، چنانچہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ملک اپنی مٹی سے اس ریاست پر حملہ کر سکتا ہے، لیکن یہ بظاہر ناممکن اقدام صاحب حکمت و شجاعت سپہ سالار سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کی قیادت میں، الحاج حسن طہرانی مقدم، الحاج قاسم سلیمانی، شہید محمد رضا زاہدی اور شہید علی آقازادہ نژاد جیسے شہید جرنیلوں کے وارثوں اور شاگردوں ـ بالخصوص جنرل امیرعلی حاجی زادہ اور ان کے رفقائے کار ـ کی دانشمندی اور مہارت کے بدولت، انجام کو پہنچا، سینسر کا مغربی اور صہیونی حصار ایک بار ٹوٹ گیا اور مغربی جامعات میں نہ ختم ہونے والی احتجاجی تحریک کا آغاز ہؤا اور آج نہ صرف صہیونی ریاست کا وجود ہر طرف سے خطروں میں گھرا ہؤا ہے، بلکہ مغربی استعمار کی عالمی سلطنت بھی پہلے سے زیادہ تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ امام خمینی اور امام خامنہ ای، سپاہ پاسداران اور ایران کی مسلح افواج، مقاومت کے مجاہدین اور غزہ کے شہیدوں نے مغربی نوجوانوں کو فیصلہ کرنے کی ہمت عطا کی۔
۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: بہزاد زارع و فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110